طہارت کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 07, 2021

وضو میں عورتیں سرکا مسح کس طرح کریں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کےلیے مردوں کی طرح مکمل سر کا مسح کرنا ضروری ہے البتہ جو بال سر کے نیچے تک لٹک رہے ہوتے ہیں، ان کا مسح ضروری نہیں، دینی احکام میں مرد اور عورتیں برابر کے شریک ہیں ۔ مسح کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور تم اپنے سروں کا مسح کرو۔ 

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کے پیش نظر اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ تمام سر کا مسح کرنا۔

مسح کرنے میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت سعید بن مسیب کا قول نقل کیا ہے کہ اس حکم میں مرد خواتین برابر ہیں، عورت بھی اپنے تمام سر کا مسح کرے گی۔ اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے جب مسئلہ پوچھا گیا کہ آیا عورت کو سر کے کچھ حصے کا مسح کافی ہو گا تو انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے دلیل پکڑی کہ عورت کو بھی پورے سر کا مسح کرنا ہو گا۔ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے کہا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بتائیں تو انہوں نے عملی طور پر وضو کر کے دکھایا ، اس حدیث میں مسح کا طریقہ بایں الفاظ ہے:’’ پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، دونوں ہاتھوں کو سر کے آگے اور پیچھے لے گئے ، پیشانی سے شروع کیا یہاں تک کہ انہیں گدی تک لے گئے پھر اس جگہ تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ 

اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تمام سر کا مسح کرنا چاہیے، کچھ اہل علم حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے ان بالوں کا مسح کیا جن کا رخ پیشانی کی طرف تھا ، لیکن اسی حدیث میں ہے کہ سر کے باقی حصے پر پگڑی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی پر مسح کر لیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ سر کا جو حصہ ننگا تھا اس پر محسوس کر لیا اور باقی پگڑی پر مسح کیا، حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ بہر حال مسح کرنے میں عورت ، مردوں کی طرح ہے ، اسے بھی تمام سر کا مسح کرنا ہو گا، البتہ جو بال نیچے کی طرف لٹک رہے ہوتے ہیں ان پر مسح کرنا ضروری نہیں۔

( واللہ اعلم ورسولہ)

[1] المائدة: ۶۔

[2] صحیح البخاري ، الوضو ،باب ۳۸۔

[3] صحیح البخاري ، الوضو : ۱۸۵۔

 

اٹیچ باتھ میں وضو کی دعا  وغیرہ پڑھنا کیسا؟

آجکل گھروں میں اکثر اٹیچ باتھ روم (ATTACH BATH ROOM ) بنے ہوتے ہیں جہاں آدمی رفع ِ حاجت بھی کرلیتا ہے اور وضوء بھی اسی باتھ روم میں کرلیتا ہے ،بعض حضرات تو باتھ روم کے اندر ہی کھڑے کھڑے بیسن (BASIN) ہی میں وضوء کرلیتے ہیں اور بعض سنت کے مطابق بیٹھ کر لوٹے سے وضوء بناتے ہیں ۔ لیکن ایسے باتھ روم میں کیا وضو کی دعائیں انسان پڑھ سکتا ہے یا نہیں  کیونکہ ساتھ ہی (FLUSH SYSTEM) فلش سسٹم بیت الخلاء ہونے کی وجہ سے یہ غسل خانہ بیت الخلاء کا کام بھی دیتا ہے جب کہ بیت الخلاء کے اندر ذکر و دعائیں وغیرہ پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے ایسی حالت میں صحیح طریقہ کیا ہے ؟

ایسی جگہوں پر وضو کی دعا اور دیگر اذکار کرنے سے بچا جائے ان جگہوں پر یہ دعائیں اور ذکر جائز نہیں ۔(البحر الرائق ص:۱۸ ج:۱)

   البتہ اگر ایسی جگہ قضاء ِ حاجت کی جگہ کو چھوٹی دیوار کے ذریعہ الگ کردیا گیا ہو جسکی بناء پر غسل خانہ اور بیت الخلاء الگ معلوم ہوتے ہوں تو اس صورت میں بیسن وغیرہ پر وضوء کرتے وقت دعائیں پڑھنے کی اجازت ہے جبکہ ستر کا اہتمام ہو اور وہاں ظاہری نجاست بھی نہ ہو۔

(واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ)

 

کیا موبائل پر قرآنِ پاک پڑھنے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے؟

موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چُھونا جائز ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین جو آیات نظر آتی ہیں، وہ ’’سافٹ وئیر‘‘ ہیں۔ یعنی وہ ایسے نقوش ہیں جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا۔ یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ’’ریم‘‘ پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں، لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے ’’غلافِ منفصل‘‘ پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ غلافِ منفصل سے مراد ایسا غلاف ہے جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو۔ ایسے غلاف میں موجود قرآنِ کریم کو بلا وضو چُھونے کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے۔

مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنه کالخريطة والجلد الغير المشرز لابما هو متصل به

حیض ونفاس والی عورت، جنبی اور بےوضو کے لئے مصحف کو ایسے غلاف کے ساتھ چھونا جائز ہے جو اس سے الگ ہو، جیسے جزدان اور وہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو۔ جو غلاف مصحف سے جُڑا ہوا ہو،اس کے ساتھ چھُونا جائز نہیں۔

هنديه 1: 39

سکرین پر نظر آنے والی آیات کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے بکس میں پیک ہو، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ غلافِ منفصل کی طرح یہ شیشہ اس جگہ سے جُدا ہے جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر صندوق کے اندر مصحف موجود ہو تو اس صندوق کوجنبی (جس پر غسل فرض ہو) شخص کے لیے اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے۔ جیساکہ امام شامی نے فرمایا ہے:

لَوْ كَانَ الْمُصْحَفُ فِي صُنْدُوقٍ فَلَا بَأْسَ لِلْجُنُبِ أَنْ يَحْمِلَهُ

اگر قرآنِ کریم کسی بکس کے اندر ہو تو جنبی کے لیے اس بکس کو چھونے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

ابن عابدين، رد المحتار على الدر المختار، 1: 293، دار الفكر-بيروت

لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چُھونا اور پکڑنا جائز ہے۔ بے وضو شخص کے لیے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے، تاہم جنبی کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت ناجائز ہے، اس سے احتراز لازم ہے ۔

(واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ)

 

شرعی معذور کسے کہتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شرعی معذوروہ شخص ہوتا ہے کہ جس پرایک نماز کا اول سے آخرتک پورا وقت ایسا گزرجائے کہ اس پورے وقت میں وضو توڑنے والی کوئی چیز مثلا ریح کا خارج ہونا،اس طرح مسلسل پایا جائے کہ اسے اتنا وقت بھی نہ ملے کہ وہ وضو کرکے فرض ادا کرسکے،ایسی صورت میں یہ شرعی معذورکہلائے گا ،اوراس کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز کے ایک وقت میں وضو کرے ،اب وضوتوڑنے والی وہ چیز جو مسلسل پائی جارہی ہے ،اس کے آنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ،اور یہ اسی ایک وضو سے ہی اس وقت میں نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے ۔جب اس نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اوراب اگلی نماز کے وقت میں دوبارہ وضو کرناہوگا ،اسی طرح ہرنماز کے وقت میں ایک وضو کرنا ہوگا۔نیز جب ایک مرتبہ یہ شرعی معذورہوگیا تو اب ہرنماز کے وقت میں اگرایک مرتبہ بھی وہ چیز پائی گئی جس کی وجہ سے وہ شرعی معذوربنا تھا تو تب ہی یہ شرعی معذوررہے گا ،البتہ اگر ایک نماز کا پورا وقت ایسا گزرگیا کہ یہ جس چیز کی وجہ سے شرعی معذوربناتھا وہ چیز ایک مرتبہ بھی نماز کے پورے وقت میں نہ پائی گئی تو اب یہ شرعی معذورنہیں رہے گا ،اب جب بھی وضو توڑنے والی چیز پائی جائے گی ،اسے نئے سرے سے وضو کرنا لازم ہوگا۔

بہارشریعت میں ہے:” ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے ،اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارِج ہونا، یا دُکھتی آنکھ سے پانی گرنا، یا پھوڑے، یا ناصور سے ہر وقت رطوبت بہنا، یا کان، ناف، پِستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وُضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکاتو عذر ثابت ہوگیا۔ “

(بہارشریعت جلد1،حصہ2،صفحہ385،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

مزید اسی میں فرمایا:” جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا، مثلاً عورت کو ایک وقت تو اِستحاضہ نے طہارت کی مہلت نہیں دی اب اتنا موقع ملتا ہے کہ وُضو کرکے نماز پڑھ لے مگر اب بھی ایک آدھ دفعہ ہر وقت میں خون آجاتا ہے تو اب بھی معذور ہے۔ یوہیں تمام بیماریوں میں اور جب پورا وقت گزر گیا اور خون نہیں آیاتو اب معذورنہ رہی جب پھر کبھی پہلی حالت پیدا ہو جائے تو پھر معذور ہے اس کے بعد پھر اگر پورا وقت خالی گیا تو عذر جاتا رہا۔ “

(بہارشریعت جلد1،حصہ2،صفحہ385،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

راستے کی کیچڑ پاک ہے یا ناپاک؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب تیرا  کپڑا ظاہر میں پلید  نہ ہو تو اپنے کپڑے کو ایسے کیچڑ سے جس میں نجاست یقینا نہ ہو دھونے کی ضرورت نہیں۔ کیو نکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے انہیں ایک عورت نے کہا میرا دامن لمبا ہے اور گندی جگہ سے گزر تی ہوں تو آپ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’بعد والی جگہ سے گزرتے ہوئے وہ پاک ہو جاتا ہے۔مالک (1؍71) احمد ‘ابو داؤد(1؍77) دارمی ‘المشکاۃ(1؍53) ۔اور اس کی سند بوجہ  شاہد درست  ہے جو ہم ابھی ذکر کریں گے۔

جیسے ترمذی نے(2؍47) میں اور ابن ماجہ نے (1؍87) میں روایت کیا ہے بنی عبد الاشہل کی ایک عورت سے روایت ہے وہ کہتی ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول !مسجد تک ہمارا راستہ بدبودار  ہے۔تو بارش میں ہو کیا کریں ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا ‘اس کے بعد والا راستہ اس سے  اچھا نہیں ہے !میں نے کہا !ہاں ہے فرمایا :یہ اس کے بدلے  میں ہے ‘ابوداؤد(1؍77) بسند صحیح ۔ المشکوٰۃ (1؍53) ابن ماجہ (1؍87)

اور جب اصل اشیاء میں طہارت  ہے اور نجاست  متیقن نہیں ۔تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔موءطا کے حاشیے  میں ہے ’’راستوں کا کیچڑ   پاک  ہے جب تک اس میں نجاست نہ ہو جائے ۔اور المرقاۃ (2؍76) میں ہے :اگر یہ حدیث اس پر محمول کی جائے کہ راستے کا کیچڑ پاک ہے یا عموم بلویٰ کی رجہ سے معاف ہے تو یہ توجیہ عمدہ ہے۔

اور رد المختار (1؍216) میں ہے :’’راستوں کا کیچڑ معاف ہے مجبور ی کی وجہ سے اگرچہ سارے کپڑے بھر جائیں۔اگرچہ گندگی اس میں ملی ہو اور اس کے  ساتھ نماز درست ہے  ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مشائخ نے امام محمد کے آخر قول پر قیاس  کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ گوبر ولید پاک ہے ‘‘۔

میں کہتا ہوں :یہی حق ہے جیسے کہ مسئلہ (130) میں ذکر کر چکا ۔پھر کہا ہے۔کیچڑ کے پاک  ہونے کا قول ان کے ہاں محفوظ نہیں اور ان سے بچنا بھی مشکل ہے بخلاف ان لوگوں کے جو ایسی حالت میں نہیں گزرتے تو ان کے حق میں معاف نہیں اور وہ ان کپڑوں  میں نماز نہ پڑھیں۔

میں کہتا ہوں :معافی کے لیے قید ہے کہ نجاست کا اثر اس میں ظاہر نہ ہو جیسے کہ ’’فتح‘‘میں ’’تجنیس‘‘سے اس کا نجس ہو نا معقول ہے ۔اور قہتانی نے اسے صحیح کہا ہے ۔اور ’’تنیہ‘‘میں دو قول ہیں  اور دونوں کو  پسند کیا ہے ۔ابو نصر الدبوسی سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ پاک ہے جب تک نجست نہ دیکھے ۔اور کہا ہے یہ روایت کے لحاظ سے صحیح اور منصوص کے لحاظ سے قریب ہے۔اور  اورں سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے‘اگرنجاست کا غلبہ ہو جائز نہیں اور اگر کیچڑ کا غلبہ ہو تو پاک ہے ۔پھر کہا ہے :مصنف کے نزدیک یہ درست  ہے نہ کہ معاند کے نزدیک۔

دوسرا قول: اس قول  کا تعلق  اس سے ہے پانی اور مٹی مل جائیں  اور ان  میں سے ایک نجس ہو تو اغلب  کا ہوگا۔مجموعۃ الفتاویٰ لشیخ  الاسلام ابن تیمیہ(21؍18) میں  اس  قائدے کے تحت لکھا ہے ’’پاک چیز کا  پلید  چیز  کے ساتھ مل جانے کا شبہ  ہو تو دونوں سے اجتناب فرض ہے ۔لیکن اگر کوئی چیز  یقینی طور پر حلال ہو اور کسی ایسی چیز کے ساتھ  خلط ملط نہ ہوئی  ہو جس پر حکم نجاست کا پلید  ہو سکتی ہے؟اسی لیے اگر یقین  ہو کہ مسجد  میں یا کہیں اور کچھ جگہ پلید ہے لیکن اس کا بعینہ علم  نہ اور اس نے وہاں کس جگہ نماز پڑھی اور اسے پلید ہونے کا علم نہیں تھا تو اس  کی نماز درست ہے کیونکہ وہ جگہ یقینی طور پر پاک  تھی اور اسے یہ علم  نہیں تھا کہ یہ پلید ہے۔

اور اسی طرح اسے راستوں کے کیچڑ سے کچھ لگ جائے جس پر نجاست کا حکم  نہیں اور اسے علم ہے راستوں کا کیچڑ پلید  ہے اور  اس کا محصور و غیر عد دمیں قلیل و کثیر  میں فر ق  نہیں کر سکتا۔اور اسی طرح  کہا  گیا  ہے  بہن  کا اجنبیہ کے اشتباہ  ہونے والی مثال میں کیو نکہ  وہاں حلال کا  حرام  کے ساتھ اشتباہ ہو گیا  ہے اور یہاں حلت پر حرمت کے طاری ہونے کا شک ہو گیا ہے ۔اور جب کپڑے  یا  بدن کو  نجاست کا شک ہو جائے تو  بعض  علماء چھینٹے  مارنے کا حکم دیتے ہیں اور مشکو ک کا حکم  النضح (چھینٹے مارنا ) قرار  دیتے  ہیں ۔ جیسے کہ امام مالک ؒ فرماتے  ہیں اور بعض  علماء یہ واجب نہیں کرتے ۔

 جب احتیاط سے بھی کام لے اور مشکوک پر چھینٹے بھی مارے تو یہ اچھا  ہے کہ مروی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کافی عرصہ چٹائی  کے استعمال کی وجہ  سے چھینٹے  مارتے تھے  اور عمر رضی اللہ نے بھی اپنے کپڑے پر چھینٹے  مارے وغیرہ۔

(واللہ تعالیٰ اعلمورسولہ)

 

نقش نعلین یا مقدس نام والا بیج لگا کر بیت الخلا جانا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

جس شخص نے نقشِ نعلِ پاک یا ایسا بیج وغیرہ  لگایا ہوجس پراسمِ جلالت ”اللہ“یا دِیگر مُقَدَّسْ کلمات ،مثلاً:انبیائے کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ یا اولیائے عظام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کے اسمائے گرامی وغیرہ لکھے  ہوئے ہوں ، تو اسے  لگا کر بیت الخلا (Toilet)میں جانا مکروہ و بے ادبی ہے ، لہٰذا جب بیت الخلا جانا ہو، تو اسے باہر ہی کسی مناسب جگہ پر  رکھ کر  اور اگر باہر رکھنا ممکن نہ ہو ،تو جیب میں ڈال کر یا کسی کپڑے میں لپیٹ کر بیت الخلا جایا جائے ،جیساکہ  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اپنی مبارک انگوٹھی جس پر”محمد رسول اللہ لکھا ہواتھا ،اُتار کر بیت الخلا میں جایا  کرتے تھے ۔

    چنانچہ سنن نسائی اورسنن ترمذی میں ہے:”عن انس رضی اللہ عنہ قال:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا دخل الخلاء نزع خاتمہ “ترجمہ: حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے  ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بیت الخلامیں جاتے،تواپنی انگوٹھی مبارک اتار دیا کرتے تھے۔(سنن ترمذی،باب ماجاءفی نقش الخاتم،جلد1،صفحہ 437،مطبوعہ لاھور)

    مذکورہ بالاحدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں: ”لأن نقشه محمد رسول اللہ وفيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم اللہ واسم رسوله والقرآن وقال الابھری:وکذا سائر الرسل وقال ابن حجر:استفید منہ انہ یندب لمرید التبرز ان ینحی کل ماعلیہ معظم من اسم اللہ تعالی اونبی اوملک ،فان خالف کرہ لترک التعظیم “ ترجمہ: کیونکہ اُس پر یہ کلمات”محمد رسول اللہ“ لکھےہوئے  تھے اور حدیث پاک میں اس بات کی دلیل ہے کہ استنجا کرنے والے پر لازم ہے کہ اللہ پاک اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اسم گرامی ،  نیز قرآن پاک کو الگ  رکھ کر جائے اور ابہری نے کہا: اسی طرح باقی تمام رسولوں کے نام بھی الگ کردے اور امام ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کا ارادہ کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ ہر اس چیز کو اپنے سے الگ کردے جوقابلِ تعظیم ہو ، مثلاً: اللہ تعالیٰ،کسی نبی یا فرشتے کا نام ہو ، لہٰذا  اگر اس کے خلاف کرے گا  ، تو ترکِ تعظیم کی وجہ سے مکروہ ہوگا ۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطھارۃ ، باب آداب الخلاء، جلد2،  صفحہ57، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

    علامہ شرنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:”ویکرہ الدخول  للخلاء و معہ شئی مکتوب فیہ  اسم اللہ او قرآن “ترجمہ: اور کسی شخص کا بیت الخلا اس حالت میں داخل ہونا مکروہ ہےکہ اس کے پاس  کوئی ایسی چیز ہو جس پر اسم جلالت ”اللہ “لکھا ہویا قرآن کریم لکھا ہواہو۔ (مراقی الفلاح علی نورالايضا ح  ،   فصل فی الاستنجاء،صفحہ 44،مطبوعہ مكتبة المدينه ، کراچی  )

    غنیہ  المستملی مع منیہ  المصلی میں ہے:”( ويكره دخول المخرج)  أي الخلاء ( لمن في أصبعه خاتم فيہ  شيء من القرآن ) أو من أسماء اللہ تعالىٰ  (لما فيه من ترك التعظيم ) “ترجمہ: اورجس  کی انگلی میں ایسی انگوٹھی ہو جس پر قرآن کریم میں سے کچھ (کلمات) یا اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم مبارک (لکھا ہوا) ہو ، تو بیت الخلا میں داخل ہونا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ترکِ تعظیم ہے۔(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ، صفحہ60 ، مطبوعہ  سھیل اکیڈمی ،لاھور )

    سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”جس کے ہاتھ میں ایسی انگوٹھی ہو جس پر قرآن پاک میں سے کچھ (کلمات) یا متبرک نام ، جیسے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک یا قرآن حکیم کا نام یا اسمائے انبیاء وملائکہ علیہم الصّلوۃ والثناء (لکھے) ہوں تو اسے حکم ہے کہ جب وہ بیت الخلاء میں جائے، تو اپنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر باہر رکھ لے،  بہتر یہی ہے اور اس کے ضائع ہونے کا خوف ہو ،تو جیب میں ڈال لے یا کسی دوسری چیز میں لپیٹ لے کہ یہ بھی جائز ہے، اگر چہ بے ضرورت اس سے بچنا بہتر ہے، اگر ان صورتوں میں کوئی بھی بجانہ لائے اور یوں ہی بیت الخلاء میں چلاجائے ،  تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد4،صفحہ582،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

(واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ)